08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط14
Urdu Nove
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر14
ہادی کے جسم کو جھٹکا لگا کچھ ٹائم غنودگی میں رہا۔ اسکو آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
درد بڑھا جا رہا تھا پھر سب یاد آنے لگا درد سے پھر دل چھلنی ہوا جا رہا تھا اسکی زندگی کیسا مذاق تھی۔
وہ لڑ کھڑا کر اٹھا اور ایک طرف چل پڑا گرتا ہوا۔اسکا اپنا کوئی نہ تھا جو اپنے تھے وہ ڈرتے تھے اس سے۔
وجہ جو اتنی بڑی تھی۔
وہ مرا بھی تو نہیں۔
اب جہاں اسکو قسمت لے جائے۔
جب کچھ نظر آنا شروع ہوا تو دیکھا وہ جنگل میں تھا۔زخم میں درد تھا۔
مر جاؤں گا نہ بس ایسا ہی ٹھیک ہے ہادی نے تلخی سے سوچا اور چلتا رہا جب تک برداشت تھی پھر سر چکرانے لگا۔
گر پڑا۔ ہوش سے بیگانہ تھا وہ اب۔
جب ہوش آیا اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا۔
پانی۔ مجہے پیاس لگی ہے کیا کروں۔
بیچین ہو گیا۔
پھر خود کو گھیٹ کر چلنے لگا۔
بارش ہوئی تھی گڑھے میں پانی تھا گدلۂ مٹی والا پر وہ پی گیا۔
ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا درد سے تڑپ رہا تھا۔ اس کے خون کی بو سے ایک بھیڑھیا کھڑا تھا اس تک پہنچا ہوا۔
ہادی درد میں تھا۔
تم بھی شکار کرنے اے ہو میرا ۔
شکاری تو میں بھی تھا۔
ہنسا درد سے خود پر۔
کیسے بچوں اس سے زخمی بھی تو تھا وہ۔
بری موت وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔
بھیڑھیا اب اس پر جھپٹنے کو تیار تھا۔
ہادی نے آس پاس دیکھا۔
ایک لکڑی پر نظر پڑی۔
وہ لکڑی اٹھا کر لڑ کھڑا کر اٹھا اور مقابلے پر آیا۔
جمپ لگایا ہادی سائیڈ پر ہو گیا اور مڑھتے اس پر وار بھی کر گیا۔
ہادی برابر بچاؤ کر رہا تھا اپنا اب اسکو احساس ہو رہا تھا اسی طرح لوگ بھی اس سے بچنے کو کتنا بھاگتے تھے۔
وہ رو رہا تھا۔
غصہ میں لکڑی پھینک دی۔
آؤ اب ہادی تم سے ویسے لڑے گا۔
ایک بھیڑھیا اور آ چکا تھا۔
ایک نے جمپ لگایا ہادی نے زور سے اسکو پاؤں مار کر دوسرے کے منہ میں دونوں ہاتھ گاڑھ دیے۔
دوسرے نے حملہ کیا ۔
ہادی پہلے والے بھیڑیا کے منہ پر زور لگا کر کچھ پہاڑ چکا تھا اسی کی اوٹ میں ہوا یوں اس کا حملہ اپنے ہی ساتھی پر ہوا۔
اب بھیڑھیا کا منہ حلق تک چیرا ہوا تھا۔
ہادی اور دوسرا بھیڑیا گتھم گتھا تھے۔
اوپر نیچے ہوتے کچھ منٹ بعد ہادی اٹھ کھڑا ہوا تھا مردہ کر کے دوسرے کو۔
پھر اس جنگل سے نکلنے کا سوچ رہا تھا۔
کیوں کے کچھ ٹائم بعد یہاں جانوروں کا ہجوم ہونا تھا۔
کچھ تیز چل رہا تھا درد بھی تھا۔
اب جنگل سے نکل آیا تھا۔
کچھ دور جھونپڑی نظر آیی۔
اسی طرف چل پڑا ۔
کوئی ہے ہادی چلایا۔اب وہ لیٹ گیا تھا۔
ایک بوڑھا باہر نکلا۔اس کے ہاتھ میں موم بتی تھی۔ ہادی کے پاس آ کر جائزہ لیا۔
اوہ تم زخمی ہو۔
ندا بٹیا آواز لگائی۔
جی بابا۔ ادھر آؤ اسکو اندر لے چلیں۔
دوائی لگائی اور بولا بہادر ہو جانور سے لڑ کر اے ہو۔ ہادی چپ تھا۔
دوائی سے جب سکون ملا تو نیند کی وادی میں اتر گیا۔
یہاں ہادی کو اے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔
ندا اس کے سامنے نہیں آتی تھی۔
کتنی بار ہادی کا گوشت اور خون کے لئے دل ہوا پر برداشت سے کام لیتا نہیں اب نہیں۔
مجہے انسان بننا ہے۔
مجہے اپنوں کے پاس جانا ہے۔ اب ہادی بہت حد تک بہتر ہو چکا تھا۔
بابا کی مدد کرتا ہادی کو بہت بار سوچ آیی کہ یہ تنہا کیوں ہیں یہاں پھر جھجک سے پوچھ نہیں سکا۔ایک دن صبح ہادی کو جلدی جاگ آ گئی۔
باہر نکل کر نہر کنارے چلا گیا۔
وہاں اس کی نظر ندا پر گئی۔
وہ نہا رہی تھی اس کے بال، اتنا مکمل حسن، متناسب جسم۔
ہادی مبہوت کھڑا تھا۔
ندا نے دیکھا فورا خود کو کور کیا اور بھاگ کر اپنی جھونپڑی میں گئی۔
شرم سے ندا کانپ رہی تھی۔
ہادی بےبس سا کھڑا تھا۔پھر آہستہ سے بابا کی طرف چل دیا۔
ہادی نے کافی حد تک خود پر کنٹرول کر لیا تھا۔
پھر ایک دن۔ ۔۔۔۔۔۔
کھانا پکاتے چھری لگ گئی ہاتھ پر ندا کو۔
ہادی کو چیخ کی آواز آیی دیکھا تو ندا کے ہاتھ سے خون جاری تھا۔
ہادی کا دل دھڑکا۔
پیاس لگی آہستہ آہستہ اس کے پاس پہنچا اور اس کا خون چاٹنے لگا۔
ندا چیخ مار کر دور کھڑی ہوئی۔
اس کی آنکھوں میں خوف تھا بہت خوف وہ کانپ رہی تھی۔
ت ۔تم۔ ۔۔۔۔تم آدم خور ہو ؟
اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
ندا ۔۔۔ہادی درد سے بولا۔
غلطی پھر ہونے جا رہی تھی اس سے۔
ہاں اسکو مر جانا چاہیے تھا وہ نہیں بدل سکتا آج اسکو احساس ہوا تھا۔
پاس مت آنا میرے ندا نے چاقو اٹھا لیا تھا۔
تم مجہے جانتے نہیں۔ لڑنا آتا ہے مجہے میرے بابا نے یوں تو تنہا نہیں رکھا ہوا مجہے۔
ہادی کو درد ہوا اس کے خوف اور پھر جنون سے جو کہ نہ اعتباری کا تھا۔
ہادی کو اس سے محبت ہو گئی تھی پر پھر بھی وہ سب کچھ کرنے جا رہا تھا۔